مہر خبررساں ایجنسی، مانیٹرنگ ڈیسک: سپاہ پاسداران انقلاب نے گزشتہ دنوں کے دوران حالیہ برسوں کی سب سے بڑی اور جامع بحری مشقیں منعقد کی ہیں۔ دسمبر کے اوائل میں دو روزہ یہ فوجی مشقیں خلیج فارس، آبنائے ہرمز اور خلیج عمان کے حساس سمندری علاقوں میں انجام دی گئیں۔ اقتدار کے نام سے منعقد ہونے والی ان مشقوں میں ایران کے جدید ترین مقامی میزائل نظام، مصنوعی ذہانت پر مبنی فضائی دفاعی نیٹ ورکس، الیکٹرانک وارفیئر یونٹس اور بیک وقت بیلسٹک و کروز میزائلوں کا کامیاب تجربہ کیا گیا جس کا مقصد ایران کی دفاعی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ تھا۔
دفاعی و حملہ آور نظام کا ہمہ گیر مظاہرہ
یہ مشق واضح طور پر بحیرہ ہند کے داخلی راستوں کے اہم اسٹریٹجک مقامات پر مرکوز رہی جن میں ابو موسی، تنب بزرگ، تنب کوچک اور سیری جیسے جزائر شامل تھے جہاں سے سمندری راستوں اور تنگ گزرگاہوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ مشق کے دوران ایرانی بحری افواج نے بحری جہازوں پر نصب جدید فضائی دفاعی نظاموں نواب، مجید اور میثاق کو نہ صرف ٹیسٹ کیا بلکہ انہیں ایسے الیکٹرانک جنگی حالات میں بھی فعال کیا گیا جن میں دشمنی یا خلل ڈالنے کی کوششیں سمجھی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ریڈار سگنلز، مواصلاتی چینلز اور سینسر فیڈز پر مصنوعی مداخلت کی مشقیں کی گئیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ یہ نظام شور و خلل کی صورت میں اہداف کو کس حد تک درستگی سے شناخت اور نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ان تجربات کا عملی پہلو یہ بھی تھا کہ الیکٹرانک وارفیئر ماحول میں یہ نظام اپنی کارکردگی برقرار رکھ سکیں مثلاً فیک سگنلز، جیمنگ یا مواصلاتی خلل کے دوران بھی نشانہ گیری مستحکم رہی۔ ایسی ہم آہنگی اس بات کی علامت ہے کہ بحری یونٹس میں نصب دفاعی نظام اب ایک ملٹی لیئرڈ دفاعی چین کا حصہ بن چکے ہیں جو فضائی، سطحی اور بحری خطرات کو ایک جامع طریقے سے سنبھال سکتے ہیں، اور اس سے میدان جنگ میں ایران کی فوری ردعمل اور بقاء کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔
میزائل اور ڈرون حملوں کی عملی مشق
مشق کے آخری مرحلے میں مربوط انداز میں کروز اور بیلسٹک میزائل داغے گئے۔ استعمال ہونے والے کروز میزائلوں میں قدر-110، قدر-380 اور قادر شامل تھے، جبکہ بیلسٹک میزائل کے طور پر 303 سسٹم کا استعمال کیا گیا۔ یہ میزائل ایران کے اندرونی علاقوں سے فائر کیے گئے اور خلیج عمان میں مقررہ اہداف کو انتہائی درستگی سے نشانہ بنایا۔
اسی دوران ڈرون یونٹس نے دشمن کے فرضی اہداف پر حملے کیے اور سپاہ پاسداران کی فضائی دفاعی فورسز نے جنگی جہازوں اور ساحلی تنصیبات کے تحفظ کے لیے فضائی خطرات کا مقابلہ کرنے کی مشق بھی انجام دی۔
فعال اور فوری ردعمل کا عملی مظاہرہ
حکام کے مطابق یہ مشق محض فوجی تربیت تک محدود نہیں تھی بلکہ خطے میں موجود غیر ملکی بحری افواج، خصوصاً امریکی جنگی جہازوں کے لیے ایک واضح اور براہِ راست انتباہ بھی تھی۔ مشق کے پہلے ہی دن سپاہ پاسداران کی بحریہ نے قریبی غیر ملکی جنگی جہازوں کو عملی وارننگ جاری کی، جس کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ ایران کسی بھی جارحانہ اقدام کا فوری اور مؤثر جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ اقدام ایران کی فوری ردعمل اور بحری سیکیورٹی کی مضبوطی کو اجاگر کرتا ہے۔
مشق میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، جدید ڈرونز، مصنوعی ذہانت سے لیس فضائی دفاعی نظام اور الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتوں کا یکجا استعمال کیا گیا۔ ان تمام عناصر کو ہم آہنگ انداز میں استعمال کر کے ایران نے ایک ایسی ہمہ گیر دفاعی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا جو فضائی اہداف، میزائل حملوں اور بڑے بحری جہازوں سمیت ہر طرح کے خطرات کا مؤثر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس سے نہ صرف ایران کی فوجی تیاریوں کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے بلکہ خطے میں ایران کی دفاعی خودمختاری اور جارحیت کے خلاف مضبوط حکمت عملی کا بھی عملی پیغام ملتا ہے۔
سیاسی و جغرافیائی پہلو
دنیا کی توانائی کی ترسیل کے سب سے اہم سمندری راستوں، خصوصاً خلیج فارس، آبنائے ہرمز اور خلیج عمان میں اس نوعیت کی وسیع فوجی مشق کا انعقاد اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ ایران علاقائی سلامتی میں محض ایک حصہ دار نہیں بلکہ ایک مؤثر اور فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ آبی گزرگاہیں عالمی سطح پر تیل اور گیس کی ترسیل کا مرکزی راستہ ہیں، جہاں کسی بھی قسم کی کشیدگی کے عالمی معیشت پر براہِ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان علاقوں میں مشق کر کے ایران نے یہ پیغام دیا کہ وہ ان حساس راستوں کی نگرانی، تحفظ اور ضرورت پڑنے پر کنٹرول کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے، اور عالمی بحری آمد و رفت کے توازن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اسی تناظر میں مشق کے نتائج کو اعلانیہ طور پر بیان کرنا اور نئے دفاعی و جارحانہ نظاموں کو عوام کے سامنے لانا محض معلوماتی عمل نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا پیغام ہے۔ اس اقدام کے ذریعے ایران نے واضح کر دیا کہ اس کی دفاعی صلاحیتیں نہ صرف فعال ہیں بلکہ مسلسل ارتقا کے عمل سے بھی گزر رہی ہیں۔ حکام کے مطابق اس کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی دشمنانہ کارروائی، چاہے وہ فوجی ہو یا دباؤ کی کسی اور شکل میں، اس کی قیمت بہت بھاری ہوگی اور اس کے اثرات علاقائی سطح سے بڑھ کر بین الاقوامی سطح تک محسوس کیے جائیں گے۔
مقامی طور پر تیار کردہ ہتھیار
ایران نے اس مشق میں واضح کیا کہ استعمال ہونے والا تمام فوجی سازوسامان ملک کے اندر ہی تیار کیا گیا تھا۔ مشق میں ایسے جدید اور اسمارٹ ہتھیار استعمال کیے گئے جو طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بہت زیادہ درستگی کے ساتھ اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ ہتھیار وزارتِ دفاع اور سپاہ پاسداران کی بحریہ نے تیار کیے ہیں۔ مقامی سطح پر ہتھیار بنانے پر زور دراصل ایران کی اس حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد پابندیوں اور بیرونی دباؤ کے باوجود اپنی دفاعی صلاحیتوں کو خودمختار اور مضبوط بنانا ہے۔
مشق کے دوران ایک نئے بحری بیلسٹک میزائل کی بھی نمائش کی گئی، جس کی رینج ایک ہزار تین سو پچہتر کلومیٹر سے زائد بتائی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ میزائل پورے خلیج فارس تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایرانی ماہرین کے تیار کردہ اس میزائل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ فائر ہونے کے بعد بھی اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور یہ دورانِ پرواز اپنا راستہ بدل سکتا ہے۔ حکام کے مطابق مشق میں اس میزائل نے انتہائی درستگی کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنایا، جو ایران کی دفاعی طاقت میں ایک اہم اضافہ سمجھا جا رہا ہے۔
قریبی تصادم میں فیصلہ کن سبقت
ایران کے بحری دفاعی نظریے کی بنیاد ایسی حکمتِ عملی پر ہے جو محدود وسائل کے باوجود زیادہ مؤثر نتائج فراہم کر سکے، اسی لیے غیر متناسب صلاحیتوں کو اس میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس دفاعی حکمت عملی کے تحت سپاہ پاسداران کی بحریہ خلیج فارس میں موجود غیر ملکی جنگی جہازوں پر مسلسل نظر رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لیے جدید ڈرونز کا ایک منظم نیٹ ورک استعمال کیا جاتا ہے جو حساس سمندری علاقوں میں پرواز کرتے ہوئے حتی کہ جدید امریکی جنگی جہازوں کے اوپر سے بھی گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دفاعی ذرائع کے مطابق ایرانی بحری فورسز نے متعدد مواقع پر غیر ملکی جنگی جہازوں کے انتہائی قریب پہنچ کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا، اور کئی مرتبہ یہ کارروائیاں اس طرح انجام پائیں کہ مخالف فریق بروقت اس کا ادراک بھی نہ کر سکا۔ اس سے ایران کی مؤثر نگرانی، زمینی و فضائی معلومات پر مضبوط گرفت اور خطے میں غیر ملکی نگرانی کے نظام کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مزید یہ کہ ماضی میں امریکی اور برطانوی میرینز کی گرفتاری اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے غیر ملکی جہازوں کی ضبطی جیسے واقعات بھی ایران کی دفاعی سنجیدگی کی مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ ان واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایران اپنے بحری مفادات، خودمختاری اور علاقائی سلامتی کے تحفظ کے لیے محض دعوؤں پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ضرورت پڑنے پر عملی اور فیصلہ کن اقدامات کرنے کی مکمل صلاحیت اور آمادگی رکھتا ہے۔
نتیجہ
سپاہ پاسداران کی بحریہ کی اقتدار نامی دفاعی مشق میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، مصنوعی ذہانت سے لیس دفاعی نظام، جدید ڈرونز اور الیکٹرانک وارفیئر کی صلاحیتوں کو ایک جامع اور ہم آہنگ انداز میں استعمال کیا گیا۔ یہ محض ایک فوجی مشق نہیں تھی بلکہ ایران کے بدلتے ہوئے دفاعی نظریے کا عملی مظاہرہ تھی، جس کی بنیاد فعال اور فوری جوابی صلاحیت پر رکھی گئی ہے۔
موجودہ علاقائی حالات میں یہ مشق صرف طاقت دکھانے کے لیے نہیں تھی بلکہ ایک واضح اسٹریٹجک پیغام بھی تھا کہ ایران کے خلاف کسی بھی جارحانہ اقدام کے سیاسی اور سیکیورٹی کے لحاظ سے سنگین اور دور رس نتائج ہوں گے۔
آپ کا تبصرہ